Header Ads Widget

انتقال وراثت کو چیلنج کرنے کی میعاد سماعت (limitation) اور اصول رضامندی (acquiescence) کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک انتہائی اہم فیصلہ !

 2022 SCMR 1558

فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ ؛
جلال شاہ نام کا ایک مورث اعلیٰ جو کہ انیس سو تریسٹھ میں فوت ہوکر اپنے ورثاء میں دو بیٹے یعنی مشتاق علی شاہ اور سید علی شاہ کے لئے ترکے میں ایک سو چودہ کنال اور چودہ مرلے زمین چھوڑ دیتے ہیں اور مندرجہ بالا وراثتی حصہ تین دسمبر انیس سو پینسٹھ کو انتقال نمبر اکہتر کے زریعے مندرجہ بالا دونوں بیٹوں کو منتقل ہوجاتی ہے اور مندرجہ بالا انتقال کے مطابق جلال شاہ کے صرف یہی دو ہی بیٹے ہوتے ہیں لیکن یاد رہے کہ جلال شاہ کی ایک بیٹی غلام فاطمہ بھی ہوتی ہے لیکن وہ اپنے مرحوم باپ سے پہلے ہی انیس سو ساٹھ میں فوت ہوئ ہوتی ہیں اور غلام فاطمہ کی اولاد میں تین بیٹیاں جن میں امت العزیز ، اختر اور صفدر بی بی شامل ہیں۔ جلال شاہ کی نواسی امت العزیز یعنی غلام فاطمہ کی بیٹی نو فروری دو ہزار آٹھ کو ریونیو اتھارٹی کے پاس سیکشن فور ایم ایف ایل او کے تحت انتقال نمبر اکہتر کی تصحیح کے لئے ایک درخواست جمع کرتی ہیں لیکن ریونیو اتھارٹی ان کی درخواست کو مسترد کردیے ہیں جس کے بعد امت العزیز دو فروری دو ہزار بارہ کو سول جج کی عدالت میں تنسیخ انتقال نمبر اکہتر اور دعویٰ استقرار حق جمع کرتی ہیں لیکن دوران مقدمہ سات جولائی دو ہزار تیرہ کو امت العزیز کا انتقال ہوجاتا ہے جس کے بعد اس کے شوہر اور بیٹے عدالت سے وہ مقدمہ اس اجازت کے ساتھ واپس لے لیتے ہیں کہ وہ نیا مقدمہ درج کریں گے جس کے بعد دو جون دو ہزار چودہ کو امت العزیز کا شوہر اور بیٹا ایک نیا مقدمہ دائر کر دیتے ہیں جو کہ ان کے حق میں فیصلہ بھی ہوجاتا ہے اور اسی فیصلے کے خلاف اپیل اور رویجن پیٹیشن بھی خارج ہوجاتی ہے جس کے بعد یہ مقدمہ سپریم کورٹ پہنچ ہوجاتا ہے اور سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ دو رکنی بینچ جو کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل ہوتا ہے کہ سامنے فکس ہوجاتا ہے۔
نوٹ : سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت سے پہلے کچھ اہم باتیں جن کا یہاں زکر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جلال شاہ کا پہلا بیٹا مشتاق علی شاہ انیس سو نواسی میں فوت ہوا ہوتا ہے اور ان کے حصے کی زمین کا انتقال ان کے ورثاء کے نام ہوا ہوتا ہے لیکن بعد میں ان کے ورثاء ایک مصباح الحسن نامی تیسرے فریق کو اپنی زمین بیچ کر ان کے حق میں انتقال کر دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جلال شاہ کا دوسرا بیٹا سید علی شاہ انیس سو بیانوے میں فوت ہوا ہوتا ہے اور اس کے حصے کی زمین کا انتقال بھی اس کے ورثاء کے نام ہوا ہوتا ہے لیکن بعد میں اس کے ورثاء بھی اپنے ایک کوثر علی شاہ نامی شریک وارث کو بیچ کر انتقال اس کے حق میں کر دیتے ہیں اور بعد میں کوثر علی شاہ نام کا یہ وارث اپنے وراثتی حصے سمیت بیع شدہ حصے کو بھی ایک اور فریق تقی ڈویلپرز کو بیچ کر انتقال ان کے نام کردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ تقی ڈویلپرز نے یہ زمین حاصل کرنے کے بعد وہاں پر ایک فاطمہ ویلی ہاؤسنگ کے نام سے ایک رہائشی سکیم کا آغاز کیا اور یہ منصوبہ سی ڈی اے سے باقاعدہ منظور ہونے کی وجہ سے وہاں پر چار سو چوالیس لوگوں نے پلاٹس بھی لئے ہوئے تھے۔
ٹرائل کورٹ ، اپیلٹ کورٹ اور رویجنل کورٹ سے یہ کیس امت العزیز کے حق میں فیصلہ ہونے کے بعد جب یہ کیس سپریم کورٹ کے سامنے گیا تو کوثر علی شاہ نامی فریق جنھوں نے یہ زمین تقی ڈویلپرز کو بیچی تھی کی جانب سے سپریم کورٹ میں دلائل دئے گئے کہ یہ زمین کوثر علی شاہ نے تقی ڈویلپرز کو پندرہ نومبر دو ہزار سات کو انتقال کے زریعے منتقل کی اور تب کسی کی طرف سے کوئ بھی اعتراض نہیں کیا گیا حالانکہ اگر اعتراض ہوتا بھی تو وہ انیس سو تریسٹھ میں ہوتا جب جلال شاہ فوت ہوئے تھے اور تب سے لے کر کوئ بھی اعتراض نہیں کیا گیا اور امت العزیز کے شوہر کے عدالت میں بیان کے مطابق امت العزیز نے اپنے بھائیوں سے زمین انیس سو بیانوے میں پہلی مرتبہ مانگی تھی تو اس لئے کاز آف ایکشن انیس سو بیانوے میں بنتا ہے اور قانون میعاد سماعت کے دفعہ اکیانوے کے مطابق لمیٹشن کا عرصہ اس کیس میں تین سال ہے اور دفعہ ایک سو بیس کے مطابق دعویٰ استقرار حق جب وہ ملکیت کے حوالے سے ہو تو اس صورت میں لمیٹشن چھ سال ہے لیکن امت العزیز نے تقریباً سولہ سال بعد دو ہزار میں پہلی مرتبہ کوئ درخواست دی اور بیس سال بعد عدالت میں کیس کیا تو اس وجہ سے امت العزیز کا یہ کیس ٹائم بارڈ ہے ۔ کوثر علی شاہ کی جانب سے ان دلائل کے جواب میں امت العزیز کی جانب سے کہا گیا کہ وہ ایک اکیلی لاچار عورت تھی جس کے جواب میں کہا گیا کہ وہ اکیلی نہیں بلکہ شادی شدہ عورت تھی ۔ یاد رہے کہ تقی ڈویلپرز کی جانب سے ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے سیکشن اکتالیس پر بھی انحصار کیا گیا اور عدالت عظمیٰ کے دو مشہور عدالتی نظائر گرانہ بنام صاحب کمالہ بی بی اور انٹلیجنس بیورو بنام شبیر حسین پر بھی انحصار کیا گیا۔ دوسری جانب یعنی ریسپانڈنٹس کی جانب سے ٹرائل کورٹ ، اپیلٹ کورٹ اور رویجنل کورٹ کے فیصلوں پر انحصار کے ساتھ ساتھ یہ بھی نکتہ اٹھایا گیا کہ وراثتی معاملات میں کوئ لمیٹشن نہیں ہوتی اور اسی نکتے کے لئے سپریم کورٹ کے مختلف عدالتی نظائر پر انحصار کیا گیا ۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے کا آغاز انتقال نمبر اکہتر سے کیا ہے اور لکھا ہے کہ امت العزیز کی جانب سے مندرجہ بالا انتقال کو تقریباً پینتالیس سال بعد پہلی مرتبہ دو ہزار آٹھ میں ریونیو اتھارٹی کے سامنے چیلنج کیا گیا جنھوں نے اس درخواست کو مسترد کیا اور پھر عدالت نے اپنے فیصلے میں ریونیو اتھارٹی کے فیصلے کا ایک پیراگراف نقل کیا ہے جس کے مطابق ریونیو اتھارٹی لانگ سٹینڈنگ انتقالات میں کوئ تغیر یا تبدیلی نہیں کر سکتی۔ اس پیراگراف کے بعد جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ امت العزیز نے بجائے ریونیو اتھارٹی کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے دیوانی مقدمہ دائر کیا۔ مقدمے میں موجود چند خامیوں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ ان خامیوں میں پڑنے کی بجائے اس کیس میں ہماری نظر میں مندرجہ ذیل نکات سب سے اہم ہیں۔ یاد رہے کہ مندرجہ ذیل وہ نکات ہیں جو اس اہم فیصلے کی تلخیص کا باعث بنے ۔
جسٹس صاحب کے مطابق انتقال وراثت میں دو طرح کے کیسز ہوتے ہیں جن میں ایک یہ جب کوئ فریق یہ دعویٰ کرے کہ اس کے وراثتی حصے کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور اس کے حصے کا اندراج بھی انتقال میں نہیں ہوا جب کہ دوسرے کیسز یہ آتے ہیں کہ وارث خود خاموش اور بیکار بیٹھا رہے اور اس کی جانب سے تب تک کوئ دعویٰ نہیں کیا جاتا جب تک کوئی تیسرا فریق نہ آئے تو ایسے کیسز میں متاثرہ فریق کے لئے یہ ثابت کرنا لازمی ہوتا ہے کہ اس کو وراثت سے محروم اس کی لاعلمی میں کیا گیا اور دوسری بات اس کے لئے یہ بھی ثابت کرنا لازمی ہے کہ خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کوئ سازباز ہوئ ہے اور تیسری بات یہ کہ اس کے لئے یہ بھی ثابت کرنا لازمی ہوگا کہ خریدنے والے کو اس کے حق کا پتہ تھا لیکن اس کے باوجود اس نے یہ زمین خریدی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مندرجہ بالا نکات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہا گیا کہ نچلی عدالتوں میں سے کسی نے بھی ان نکات کی طرف غور نہیں کیا کہ اس کیس میں تیسرے فریق کے حقوق بھی شامل ہوچکے ہیں اور بالخصوص تیسرے فریق کے حقوق امت العزیز کی جانب سے انتقال چیلنج ہونے سے پہلے ہی شامل ہوچکے تھے تو ایسی صورت میں تیسرے فریق کو خصوصاً جب اس کو نہ پارٹی بنایا گیا ہو اور نہ سنا گیا ہو تو ان کو محروم کرنا کسی بھی صورت قابل جواز نہیں ہوسکتا اور پھر اس نکتے کے لئے عدالت نے عدالت عظمیٰ کے مشہور دو عدالتی نظائر جن میں نمبر ایک گرانہ بنام صاحب کمالہ بی بی PLD 2014 SC 167 اور انٹلیجنس بیورو بنام شبیر حسین 2022 SCMR 977 پر بھی انحصار کیا گیا اور فیصلے کے آخر میں جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ نچلی عدالتوں نے عدالت عظمیٰ کے مندرجہ بالا فیصلوں پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی اصول رضامندی کی طرف اور نہ ہی زمین میں تیسرے فریق کے حقوق کی طرف اور نہ ہی انتقالات میں لانگ سٹینڈنگ انٹریز کی طرف اور نہ ہی اس طرف کہ امت العزیز نے پینتالیس سال تک کوئ دعویٰ نہیں کیا اور صرف اس وقت دعویٰ کیا جب زمین میں تیسرے فریق کے حقوق شامل ہوئے تو ان نکات کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نچلی تینوں عدالتوں یعنی ٹرائل کورٹ ، اپیلٹ کورٹ اور رویجنل کورٹ کے فیصلوں کو ختم کرتے ہوئے امت العزیز کے کیس کو مسترد کر دیا اور تقی ڈویلپرز اور کوثر علی شاہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔
اس انتہائی اہم کیس کا خلاصہ کچھ یوں ہیں کہ انتقال وراثت میں دو طرح کے کیسز ہوتے ہیں جن میں ایک یہ جب کوئ فریق یہ دعویٰ کرے کہ اس کے وراثتی حصے کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور اس کے حصے کا اندراج بھی انتقال میں نہیں ہوا جب کہ دوسرے کیسز یہ آتے ہیں کہ وارث خود خاموش اور بیکار بیٹھا رہے اور اس کی جانب سے تب تک کوئ دعویٰ نہیں کیا جاتا جب تک کوئی تیسرا فریق نہ آئے تو ایسے کیسز یعنی دوسرے قسم کے کیسز میں متاثرہ فریق کے لئے یہ ثابت کرنا لازمی ہوتا ہے کہ اس کو وراثت سے محروم اس کی لاعلمی میں کیا گیا اور دوسری بات اس کے لئے یہ بھی ثابت کرنا لازمی ہے کہ خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کوئ سازباز ہوئ ہے اور تیسری بات یہ کہ اس کے لئے یہ بھی ثابت کرنا لازمی ہوگا کہ خریدنے والے کو اس کے حق کا پتہ تھا لیکن اس کے باوجود اس نے یہ زمین خریدی ہو تو اگر وہ یہ باتیں ثابت کردے تو تب اس کے حق میں فیصلہ ہوگا وگرنہ اگر یہ باتیں وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے تو پھر اس کو خاموشی کی سزا وراثت سے محرومی کی صورت میں دیا جائے گا ۔

Post a Comment

0 Comments

close