Header Ads Widget

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پٹیشنز منظور کر لیں اور الیکشن کمیشن کو 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے الیکشن ملتوی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

 

اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو شیڈول تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے علی نواز اعوان اور جماعت اسلامی کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کا فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نےمختصر فیصلہ سنایا، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے یوٹرن لیا، علی نواز اعوان
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی نواز اعوان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یوٹرن لیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی نواز اعوان نے کہا کہ ہم نے انہیں قانونی طور پر فارغ کیا ہے۔
علی نواز اعوان نے کہا کہ کل تحریک انصاف اور جمہوریت کی فتح ہوگی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے آج جمع کروایا گیا جواب پیش کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن حکام اٹارنی جنرل کے پاس گئے، اٹارنی جنرل نے وزیرِ قانون سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
جواب میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وزیر قانون نے ابتدائی طور پر 6 ماہ میں الیکشن کا کہا ہے، الیکشن کمیشن نے 120 دن کے اندر انتخابات پر اصرار کیا۔
الیکشن کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر قانون نے بعد میں 4 ماہ کے اندر انتخابات پر رضامندی ظاہر کر دی، اٹارنی جنرل نے وزارتِ داخلہ کے حکام سے بھی رابطہ کیا ہے۔
تحریری جواب میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ نے معاملے پر آج میٹنگ رکھی ہے، وزیر داخلہ کی جانب سے حکام نے جواب سے آگاہ کیا۔
اپنے تحریری جواب میں الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بتایا گیا ہے کہ وزیر داخلہ اکیلے وعدہ نہیں کر سکتے، وفاقی حکومت سے مشاورت ضروری ہے۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل سردار تیمور اسلم ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا بوجھ عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی، عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے کا کبھی نہیں کہا تھا، الیکشن کمیشن نے مجوزہ قانون سازی کا سہارا لیا، صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث اسے قانون سازی نہیں، مجوزہ بل ہی کہا جائے گا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول کسی عدالت کے سامنے چیلنج ہوا؟ اگر چیلنج نہیں ہوا تو الیکشن شیڈول تو ابھی بھی موجود ہے۔
ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ نہیں، بلدیاتی انتخابات کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔
عدالت نے سوال کیا کہ اگر ہم آپ کی رٹ پٹیشن منظور کریں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات کرا سکتا ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن خود کہہ چکا ہے کہ تمام تیاری مکمل اور صرف سامان کی ترسیل باقی ہے، الیکشن کمیشن بے شک ایک ہفتے بعد انتخابات کروالے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے پٹیشنز منظور کر لیں اور الیکشن کمیشن کو 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے الیکشن ملتوی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔
اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو شیڈول تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے علی نواز اعوان اور جماعت اسلامی کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کا فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نےمختصر فیصلہ سنایا، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے یوٹرن لیا، علی نواز اعوان
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی نواز اعوان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یوٹرن لیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی نواز اعوان نے کہا کہ ہم نے انہیں قانونی طور پر فارغ کیا ہے۔
علی نواز اعوان نے کہا کہ کل تحریک انصاف اور جمہوریت کی فتح ہوگی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے آج جمع کروایا گیا جواب پیش کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن حکام اٹارنی جنرل کے پاس گئے، اٹارنی جنرل نے وزیرِ قانون سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
جواب میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وزیر قانون نے ابتدائی طور پر 6 ماہ میں الیکشن کا کہا ہے، الیکشن کمیشن نے 120 دن کے اندر انتخابات پر اصرار کیا۔
الیکشن کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر قانون نے بعد میں 4 ماہ کے اندر انتخابات پر رضامندی ظاہر کر دی، اٹارنی جنرل نے وزارتِ داخلہ کے حکام سے بھی رابطہ کیا ہے۔
تحریری جواب میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ نے معاملے پر آج میٹنگ رکھی ہے، وزیر داخلہ کی جانب سے حکام نے جواب سے آگاہ کیا۔
اپنے تحریری جواب میں الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بتایا گیا ہے کہ وزیر داخلہ اکیلے وعدہ نہیں کر سکتے، وفاقی حکومت سے مشاورت ضروری ہے۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل سردار تیمور اسلم ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا بوجھ عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی، عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے کا کبھی نہیں کہا تھا، الیکشن کمیشن نے مجوزہ قانون سازی کا سہارا لیا، صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث اسے قانون سازی نہیں، مجوزہ بل ہی کہا جائے گا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول کسی عدالت کے سامنے چیلنج ہوا؟ اگر چیلنج نہیں ہوا تو الیکشن شیڈول تو ابھی بھی موجود ہے۔
ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ نہیں، بلدیاتی انتخابات کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔
عدالت نے سوال کیا کہ اگر ہم آپ کی رٹ پٹیشن منظور کریں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات کرا سکتا ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن خود کہہ چکا ہے کہ تمام تیاری مکمل اور صرف سامان کی ترسیل باقی ہے، الیکشن کمیشن بے شک ایک ہفتے بعد انتخابات کروالے۔




Post a Comment

0 Comments

close