Header Ads Widget

غیر حاضری کی بنیاد پر سکول سے نکالے جانے والے طلباء کے بارے میں سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ !

 فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ :

آئینہ حیا نام کی ایک مدعیہ جو کہ پشاور ماڈل سکول سے اپریل دو ہزار اٹھارہ سے لے کر مارچ دو ہزار انیس تک جماعت نہم کا امتحان پاس کرنے کے بعد جماعت دہم میں داخلہ لیتی ہیں لیکن مدعیہ سکول ھذا سے پانچ نومبر دو ہزار اٹھارہ سے غیر حاضر ہوجاتی ہیں جس پر تئیس نومبر دو ہزار اٹھارہ کو اسے سکول سے خارج کر دیا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ سکول کی جانب سے مدعیہ کا نام خارج کرنے کی دو وجوہات لکھی جاتی ہیں جن میں جون دو ہزار اٹھارہ سے فیس کی عدم ادائیگی اور پانچ نومبر سے غیر حاضری شامل ہے ۔ سکول سے نام خارج ہونے کے بعد مدعیہ دو ہزار اٹھارہ کے بقیہ سیشن میں سکول نہیں جاتی اور اس بنا پر سکول اس کا نام بورڈ امتحانات دینے کے لئے پشاور بورڈ بھیجنے سے انکار کردیتا ہے جس سے متاثر ہو کر مدعیہ پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرتی ہیں اور ابتدائی ریلیف کے طور پر ہائ کورٹ مدعیہ کو جماعت دہم کے امتحانات دینے کی اجازت مرحمت فرما دیتی ہے اور نتیجتاً مدعیہ بورڈ کا امتحان دیتی ہیں جس میں وہ پاس بھی ہوجاتی ہے لیکن یہاں پر مسئلہ یہ ہوجاتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ اس بنا پر اس کے خلاف آ جاتا ہے کہ مدعیہ کی سکول میں چھیاسٹھ فیصد سے کم ہے اور قوانین کے مطابق جس کی حاضری چھیاسٹھ فیصد سے کم ہو تو وہ بورڈ کا امتحان دینے کا مجاز نہیں ہے ۔
ہائ کورٹ کے فیصلے کے خلاف مدعیہ سپریم کورٹ سے رجوع کرتی ہے اور سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کے سامنے فکس ہوتا ہے جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور جسٹس امین الدین خان شامل ہوتے ہیں۔ فریقین کو سننے کے بعد سپریم کورٹ اپنے فیصلے کا آغاز حاضری کے حوالے سے پشاور بورڈ کے قوانین سے کرتی ہے جس میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بورڈ امتحانات دینے کے لئے طلباء کی چھیاسٹھ فیصد حاضری لازمی ہے اور ریکارڈ کے مطابق مدعیہ کی حاضری پینتالیس فیصد ہوتی ہے ۔ مدعیہ کا وکیل عدالت کے سامنے یہ بات رکھتا ہے کہ مدعیہ کی چونکہ اس وقت شادی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے مدعیہ سکول سے غیر حاضر رہتی ہے لیکن پھر بھی مدعیہ کی حاضری ستاسٹھ فیصد ہے اور اس بابت وہ سکول ھذا کے پرنسپل کا ایک خط عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن پرنسپل کا جو کہ ایک تو متنازعہ ہوتا ہے اور دوسرا اس کی ریکارڈ سے کوئ مطابقت نہیں ہوتی جس کے بعد مدعیہ کے وکیل عدالت سے ہمدردی ، رحم اور انسانیت کی بنیاد پر فیصلہ سنانے کی درخواست کرتا ہے ۔ ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایک تو مدعیہ پانچ نومبر کے بعد سکول سے غیر حاضر رہی ہوتی ہیں اور دوسرا یہ کہ بورڈ امتحانات کے لئے چھیاسٹھ فیصد کا قانون بھی بڑا واضح ہے ۔
سپریم کورٹ اپنے فیصلے کے آغاز میں ہی مختلف کیسز کا حوالہ دے کر یہ لکھتا ہے کہ تعلیمی اداروں کے انتظامی ، نظم و ضبط اور پالیسی امور شعبہ تعلیم کے پروفیشنل بندوں پر چھوڑتے ہوئے تب تک مداخلت نہیں کرتی جب تک کسی قانون یا بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی نہ ہو اور اس کے سپریم کورٹ بڑے بہترین انداز میں مدعیہ کے وکیل کی جانب سے رحم اور ہمدردی کے بنیاد پر فیصلہ دینے کی بات کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمدردی کے بنیاد پر ریلیف تب ممکن ہوتی ہے جب متعلقہ قانون میں کوئ گنجائش موجود ہو اور جب گنجائش نہ ہو تو پھر عدالت قانون کی خلاف ورزی کرکے ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف نہیں دے سکتی اور چونکہ بورڈ کا امتحان دینے کے لیے چھیاسٹھ فیصد حاضری کا قانون بڑا واضح ہے تو اس لئے کوئ گنجائش پیدا نہیں ہوسکتی تو اس لئے کسی بھی عدالت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مدعیہ کو ریلیف دے سکے اور یوں مدعیہ کا درخواست خارج کر دیا جاتا ہے ۔





Post a Comment

0 Comments

close